قاہرہ،6فروری(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)مصر کی تاریخ میں پہلی بار ملک کی سپریم دستوری عدالت نے سرکاری شعبوں میں کام کرنے والے عیسائی ملازمین کو مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے بیت المقدس کی زیارت کرنے کی خاطر ایک ماہ کی رخصت دینے کی منظوری دی ہے۔فیصلے کی تفصیلات کے مطابق عیسائی ملازمین کو رخصت کے ساتھ ایک ماہ کی تنخواہ بھی ادا کی جائے گی تاکہ وہ بھی مسلمان ملازمین کی طرح بیت المقدس میں عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے جاسکیں۔ مصری عدالت کی طرف سے مسلمان ملازمین کو فریضہ حج کی ادائی کیلیے ایک ماہ کی رخصت اور ایک ماہ کی اضافی تنخواہ لینے کی اجازت ہے۔ مصر کی سپریم دستوری کونسل کے چیف جسٹس عبدالوہاب عبدالراق کی سربراہی میں عیسائی سرکاری ملازمین کو بیت المقدس کی زیارت اور مذہبی رسومات کی ادائی کا حق ایک نئے عدالتی فیصلے میں دیا۔
عدالت نے فیصلہ کیا کہ مصرمیں مسلمان سرکاری ملازمین کو فریضہ حج کی ادائی کے لیے ایک ماہ کی رخصت کے ساتھ ایک ماہ کی تخواہ لینے سے متعلق قانون 47 مجرمیہ 1978ء کی دفعہ ایک میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کو فریضہ حج کی ادائی میں مدد دینے کے لیے ایک کاہ کی رخصت دینے کی پابند ہے تاہم اس قانون میں یہ نہیں کہا گیا کہ آیا یہ حق عیسائی ملازمین کے لیے بھی ہے یا نہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون میں اس بات کی صراحت نہیں کہ آیا سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے والے عیسائی ملازمین کو بھی اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کے لیے بیت المقدس میں اپنے گرجا گھروں میں جانے کا حق ہے یا نہیں۔ عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ مسلمان ملازمین کی طرح عیسائی ملازمین کو بھی زندگی میں ایک بار اپنے مذہبی شعائر کی ادائی کے لیے بیت المقدس جانے اور اس مقصد کے لیے ایک کاہ می رخصت لینے کاحق ہے اور یہ رخصت دیگر تعطیلات میں شمار نہیں کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ ایک سابقہ عدالتی فیصلے میں شہری حقوق اور شہری آزادیوں سے متعلق کیس میں دستور کی طرف سے فراہم کردہ مساوات اور شہریوں کے درمیان مذہبی بنیاد پر عدم تفریق سے متعلق قانون کے مطابق عمل درآمد میں ناکام رہی تھی۔مصری قانون دان اور عدالتی فیصلے کے مدعی نجیب جبرائیل نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دستوری عدالت کا فیصلہ جس میں شہریوں کے درمیان رنگ، نسل، فرقے اور مذہب کی بنیاد تفریق نہ برتنے کا حکم دیا گیا ہے ایک اچھا فیصلہ ہے مگر عملی اعتبار سے اس پرعمل درآمد کافی مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ مصرمیں قبطی مسیحی برادری کے سابق مذہبی پیشوا آنجہانی شنودہ سوم نے یہ فیصلہ دے رکھا ہیکہ جب تک بیت المقدس پر اسرائیل کا ناجائز تسلط موجود ہے اس وقت تک عیسائی شہریوں پر بیت المقدس کے سفر پر پابندی رہے گی۔انہوں نے کہا کہ 26 مارچ 1980ء کو المقدس ایڈیٹوریم کے اجلاس کے دوران واضح طور پر فیصلہ نہیں کیا گیا کہ آیا قبطی آرتھوڈوکس فرقے کے عیسائی شہری مقدس مقامات کی زیارت کے سیزن میں بیت المقدس جا سکیں گے یا نہیں۔البتہ پوپ شنودہ کا خیال تھا کہ اگر مصر کے قبطی عیسائی بیت المقدس کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں تو انہیں اس کے لیے اسرائیل سے ویزہ لینا پڑے گا۔ بیت المقدس کے دورے کے لیے اسرائیل سے ویزہ لینا بیت المقدس پر صہیونی ریاست کا ناجائز تسلط تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔نجیب جبرائیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود مصری قبطی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا تواضروس بیت المقدس کیلیے عدم سفر کے فیصلے پرقائم رہیں گے اور بیت المقدس کی اسرائیل سے آزادی تک عیسائی شہریوں کو القدس میں جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔